اسکول‘اپنے حقیقی مقاصد کے لحاظ سے ایک مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مرکزی کردار کوبہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں۔اسکول کے مرکزی کردار سے مراد نہ صرف بہتر تعلیمی نتائج ہیں بلکہ بہتر تعلیمی وتربیتی ماحول‘اساتذہ کی مستقل تربیت کا نظم ‘وابستہ والدین کی تعلیمی رہنمائی کا اہتمام اور اسکول کی معاشرتی معنویت جیسے امور شامل ہیں۔ان تمام اہم امور پر مستقل توجہ دینا‘ طلبہ وطالبات کو فکری وعملی لحاظ سے باشعوربناتا ہے۔ایسے تعلیمی اداروںکی اپنی ایک منفرد شاخت بن جاتی ہے اور اس سے فارغ ہونےوالے طلبہ وطالبات ملک و ملت کا نام روشن کرنے کے اہل بن جاتے ہیں۔ذیل میں ان اہم امور کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جارہا ہےجن پر اسکول انتظامیہ کی ہمیشہ نظر ہو۔
(۱)اسکول کا داخلی ماحول: طلبہ کی ہمہ جہت تعلیم وتربیت کا اہتمام صرف کلاس کی چہاردیواری میں نہیں ہوتا بلکہ وہ اسی وقت شروع ہوجاتا ہے جب وہ اپنے گھر کی دہلیز کے باہر قدم رکھتے ہیں۔گھر سے اسکول تک کا راستہ ذہنی تیاری میں صرف ہو۔اور اسکول میں داخلے کے فوری بعد احساس ہو کہ ان کے سامنے در و دیوار اور کلاسس نہیں بلکہ ایک کھلی کتاب ہے۔ جوں ہی وہ اسکول کے احاطہ میں قدم رکھیں انکی فکری وعملی تربیت کا اہتما م ہونے لگے۔آغاز میں منعقد ہونے والی اسمبلی‘ بامعنی اور بامقصد باتوں کا اعادہ‘ اسکول کے درودیوار حتی کہ بچوں کی دیکھ بھال اور دیگر کام کرنے والی آیا بھی محسوس اور غیر محسوس طریقے سے سیکھانے اور سمجھانے کے محرک بنیں۔ا ن تمام پہلوئوں سے اسکول انتظامیہ اس بات کاجائزہ لے کہ داخلی ماحول کس حد تک بچوں کی تعلیم و تربیت میں مدد ومعاون ثابت ہورہا ہے؟
(۲) اساتذہ کی مستقل تربیت کا نظم: اسکول میں تدریسی خدمات انجام دینے والوں پر خصوصی توجہ ہو۔ اساتذہ کی جس قدر عزت وتکریم کی جائے گی وہ اسی قدر باعتماد اور طلبہ پر اثرانداز ہونے کے اہل بنتے ہیں۔ان کی موثرتعلیم وتربیت کا عمل ذمہ داران کی اپنائیت سے جڑا ہے۔ چونکہ دور حاضر بڑی تیزی سے بدل رہا ہے اورطلبہ بھی اس سے بڑے متاثر ہورہے ہیں‘ اس لئے اساتذہ کو حالات سے واقف رکھنا اور تعلیم کے نئے نئے طریقوں سے انہیں واقف کرانا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اساتذہ، طلبہ کی توجہ کو پوری طرح اپنی طرف راغب کرسکیں۔ لہٰذاان کی ہمہ جہت تربیت و رہنمائی کے لئے تین پہلوئوں سے مستقل توجہ ہو۔اول‘مقاصد تعلیم اور ان کے حصول کے ذرائع واضح کرنا۔دوم‘ تدریس کے نئے طریقوں اور ٹیکنک سے متعلق رہنمائی دینا۔اور سوم موجودہ حالات سے انہیں واقف کرانے کی کوشش کرنا ‘ بطور خاص ان امور پر رہنمائی دینا جو طلبہ اور نوجوانوں کو متاثر کررہے ہیں۔مثلاً سوشل میڈیا میں ہونےوالے بحث ومباحث‘ انٹرنیٹ کا استعمال‘نئے فیاشن اور ٹرینڈس ‘متاثر کرنے والی برائیاں اور موجودہ سیاسی اور سماجی حالات۔
(۳)والدین کی تعلیمی تربیت وراہنمائی: اسکول انتظامیہ کی یہ شعوری کوشش ہو کہ اساتذہ کی طرح ‘والدین بھی اسکول کاحصہ بن جائیں۔وہ بھی تعلیمی وتدریسی خدمات انجام دینے کے لئے اپنے گھروں کو تعلیم وتربیت کا مرکز بنائیں۔اس غرض کےلئے والدین کی بھی چند اہم امور کے تحت تربیت ورہنمائی کا اہتما م ہو۔اول‘ بچوں کی تعلیم و تربیت کی اہمیت اجاگر کرنا‘بہتر تربیت پردنیا اور آخرت میں ملنے والے اجر کی وضاحت کرنا۔دوم یہ کہ بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں عملاً حصہ لینے اور رہنمائی کرنے کے آداب اور طریقے سکھانا۔یہ بھی سمجھانا کہ جو والدین پڑھے لکھے ہوں وہ کیسے توجہ دیں اورجو پڑھنا لکھنا نہ جانتے ہوں وہ کس طرح توجہ دے سکتے ہیں۔اور سوم یہ واضح کرنا کہ اساتذہ اور انتظامیہ سے والدین کس طرح ربط وتعلق بنائے رکھ سکتے ہیں۔اور کیسے اسکو ل کی بہتر کارکردگی میں اپنا تعاون دے سکتے ہیں۔
(۴) اسکول کامعاشرتی کردار: اس سے مرادمختلف امور ومسائل کے تحت‘ اسکول، اپنے طلبہ اور انتظامیہ سمیت معاشرہ سے مستقل جڑا رہے۔ اس میں اسکول کے اطراف پاکی صفائی کا نظم کرنا اور شہر کے طول وعرض میں پھیلے مختلف اداروں سے بامعنی تعلق قائم رکھنا بھی شامل ہے۔جیسے لا اینڈ آرڈر انتظامیہ ہے تو ان سے ملاقات‘اور ٹرافک وغیرہ کے نظم میں طلبہ کا تعاون ہے۔ معاشرتی برائیاں جیسے تمباکو اور ڈرگس وغیرہ کے استعمال کے خلاف بیداری پروگرام ۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لئے خصوصی اقدامات کا اہتمام۔سائنسی مراکز‘ انڈسٹریز وغیرہ کی وزٹ اور وہاں کے ذمہ داران سے باہم تبادلہ خیال۔تجارتی مراکز کا دورہ اور وہاں ہونےوالے مختلف تجارتی معاملات کوسمجھنے سمجھانے کی کوشش۔جیل کی وزٹ اور قیدیوں کی حالات زار کا مشاہدہ اور ذمہ داران سے گفتگو۔اس کے علاوہ شجر کاری‘ مریضوں کی تیمارداری‘کھانے کی تقسیم ‘یتم خانوں اور اولڈ ایج ہوم کی زیارت وغیرہ۔ان کاموں کے علاوہ طلبہ کو اپنے اہل خاندان سے ملنے کا ہدف دینا اورچھٹیوں کے دوران اپنے گھر یا خاندان کے کاروبار، زراعت وغیرہ میں عملا شریک رہنے کی ترغیب دینا۔ ان تمام معاشرتی سرگرمیوں کو یقینی بنانے کے لئے نصابی سرگرمیاں اس طرح سے ترتیب دیں کہ ان غیر نصابی سرگرمیوں کے لئے اچھا خاصا وقت دستیاب رہےاور دیگر تعلیمی سرگرمیاں بھی متاثر نہ ہوں۔البتہ طلبہ کی عمر اور صلاحیتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مندرجہ غیر نصابی سرگرمیوں میں سے حسب گنجائش انتخاب کیا جاسکتا ہے۔
(۵) اسکول انتظامیہ کی تربیت:اوپر بیان کردہ چاروں پہلوئوں سے توجہ دینا اسکول انتظامیہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ وہ اپنے اسکول کے قیام کے ذریعہ ان سرگرمیوں کو انجام دینے کے از خود ذمہ دار بنے ہیں۔مفوضہ ذمہ داریوں سے وفا کرنا ان کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے ۔ اس ضمن میں ذرا سی بھی کوتاہی انہیں عند اللہ اور عند الناس مسئول بنا سکتی ہے۔ کیونکہ احساس ذمہ داری صرف یہ نہیں کہ بچوں کو اچھی تعلیم دیں اور ان کے بہتر نتائج یقینی بنائیں‘ بلکہ ذمہ داری بڑی گہری اور نازک ہے۔اسکول میں زیر تعلیم ایک ایک بچے کے روشن مستقبل کے انتظامیہ امین ہیں۔ان کا تعلیمی معیار بلند کرنا اور ان تمام امور کو ایڈریس کرنا ضروری ہے جو انہیں زندگی کے حقیقی مسائل سے واقف کراتے ہیں اور ان کے اندر ان مسائل حل کرنے کا ملکہ پیدا کرتے ہیں۔
اسکول کا ہمہ جہت انقلابی کردار یقینی بنانے کے لئے خود اسکول انتظامیہ اپنی باضابطہ اصلاح و تربیت پر توجہ دے۔ اس کے لئے وہ طریقہ اختیار کرے جو ہر طرح کے مادی فائدوں سے پاک ہو۔ ان افراد سے تعاون لے جن کے نزدیک تعلیمی اداروں کی تعمیر وترقی ترجیح اول ہو۔اسکول انتظامیہ کی اصلاح و تربیت کا منہج اور طریقہ کار ٹھیٹ اسلامی ہو۔ یعنی قرآن وسنت کی روشنی میں انہیں اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کافہم وشعورحاصل ہو۔موجودہ تعلیم وتربیت کے طریقوں اور دنیا بھر میں ہورہی کوششوں اور تبدیلوں سے آگاہی ہو۔برسرکار اساتذہ اور دیگر افراد کے مسائل سے واقفیت ہو اور انہیں حل کرنے کی حتی المقدور کوشش ہو۔اور یہ بھی کہ ادارہ سے وابستہ ہر فرد کیسا اپنا تعمیری کردار اداکرسکتا ہے اس کا اندازہ کرتے ہوئے ہر ایک کو بھرپور تعاون دینے کا خوش دلی سے اہتمام ہو۔
ان پہلوؤں پر توجہ سے امید ہے کہ ملت کے تعلیمی ادارے آج کے ان بلکتے سسکتے حالات میں مشعل راہ ثابت ہوں گے ۔اس سے وابستہ ذمہ دار افراداور اساتذہ عند اللہ اجر کے مستحق بنیں گے۔ ان تعلیمی اداروں سے ایسے باشعور طلبہ فارغ ہوں گے جن کا علمی وفکری معیار اونچا ہوگا۔وہ معاشرتی مسائل سے کما حقہ واقف ہوں گے اور انہیں حل کرنے کے لیے اپنے آپ کو تیار وآمادہ بھی کریں گے۔